مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عُجلتوں میں، لکھا ہُوا
کہیں،، رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو،،،، حُسنِ یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو،،،،،، حاکموں کو بُرا بھلا
تمہیں،،، فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیرِ شہر کہے تُمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کا زکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں،، عصمتیں
میرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا،،،،، نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہُوئے
میرے جاں نثار،،،،، گلی گلی
ہیں میرے اشارے کے مُنتظر
میرے عسکری میرے لشکری
جو تُمہارے جیسے جوان تھے
کبھی،،، میرے آگے رُکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اُٹھا دِیا
وہ جو میرے آگے جُھکے نہیں
جنہیں،، مال و جان عزیز تھے
وہ تو میرے ڈر سے پِگھل گئے
جو تمہاری طرح اُٹھے بھی تو
اُنہیں بم کے شعلے نگل گئے
میرے جاں نثاروں کو حُکم ہے
کہ،،،،،، گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیرِ شہر کا حُکم ہے
بِنا اعتراض،، وہ مان لیں
جو میرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی،،،،،،، عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے،،،،،،، وہ ہُوا کریں
جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ
انہیں،،،، اپنے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں،،،،، گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
اُنہیں،،،، زر کا سکہ اُچھال دو
جنہیں،،،،، اپنے درش عزیز ہوں
اُنہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دو
جو میرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے، اسے مان لو
جو میرا امام،،،،،،، بیاں کرے
وہی دین ہے ، سبھی جان لو
جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بُھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے،، زمین میں اتار دو
جو میرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں، خُوب مال و منال دو
جو، میرے خلاف ہیں بولتے
انہیں، نوکری سےنکال دو
جو ہیں بے خطاء وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گُناہ کریں وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے