غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
قفس لے اڑوں میں، ہوا اب جو سنکے
مدد اتنی اے بال و پرواز دینا
نہ خاموش رہنا مرے ہم صفیرو
جب آواز دوں ، تم بھی آواز دینا
کوئی سیکھ لے دل کی بے تابیوں کو
ہر انجام میں رنگِ آغاز دینا
دلیلِ گراں باریِ سنگِ غم سے
صفی ٹوٹ کر دل کا آواز دینا