تم سپنوں کی تعبیر پِیا
مرے پیروں میں زنجیر پِیا
اب نین بہاویں نیر پِیا
اے شاہ مرے اک بار تو آ
تو وارث، میں جاگیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
بے نام ہوئی، گم نام ہوئی
کیوں چاہت کا انجام ہوئی
مرا مان رہے، مجھے نام ملے
اک بار کرو تحریر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
کب زلف کے گنجل سلجھیں گے
کب نیناں تم سے الجھیں گے
کب تم ساون میں آؤ گے
کب بدلے گی تقدیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
سب تیر جگر کے پار گئے
مجھے سیدے کھیڑے مار گئے
آ رانجھے آ کر تھام مجھے
تری گھائل ہو گئی ہیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
میں جل جل ہجر میں راکھ ہوئی
میں کندن ہو کر خاک ہوئی
اب درشن دو، آزاد کرو
اب معاف کرو تقصیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پیا
کب زین اداسی بولے گی
کب بھید تمہارا کھولے گی
کب دیپ بجھیں ان آنکھوں کے
تم مت کرنا تاخیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
****************
سُن سانسوں کے سلطان پیا
سُن سانسوں کے سلطان پیا
ترے ہاتھ میں میری جان پیا
میں تیرے بن ویران پیا
تو میرا کُل جہان پیا
مری ہستی، مان، سمان بھی تو
مرا زھد، ذکر، وجدان بھی تو
مرا، کعبہ، تھل، مکران بھی تو
میرے سپنوں کا سلطان بھی تو
کبھی تیر ہوئی، تلوار ہوئی
ترے ہجر میں آ بیمار ہوئی
کب میں تیری سردار ہوئی
میں ضبط کی چیخ پکار ہوئی
مرا لوں لوں تجھے بلائے وے
مری جان وچھوڑا کھائے وے
ترا ہجر بڑا بے درد سجن
مری جان پہ بن بن آئے وے
مری ساری سکھیاں روٹھ گئیں
مری رو رو اکھیاں پھوٹ گئیں
تجھے ڈھونڈ تھکی نگری نگری
اب ساری آسیں ٹوٹ گئیں
کبھی میری عرضی مان پیا
میں چپ، گم صم، سنسان پیا
میں ازلوں سے نادان پیا
تو میرا کُل جہاں پیا
****************
یہ کیسی تیری پریت پیا
یہ کیسی تیری پریت پیا
تو دھڑکن کا سنگیت پیا
ترے رسم رواج عجیب بہت
مرا در در پھرے نصیب بہت
ترا ہجر جو مجھ میں آن بسا
میں تیرے ہوئی قریب بہت
مجھے ایسے لگ گئے روگ بُرے
میں جان گئی سب جوگ بُرے
آ سانول نگری پار چلیں
اس نگری کے سب لوگ بُرے
تجھے دیکھ لیا جب خواب اندر
میں آن پھنسی گرداب اندر
بن پگلی، جھلَی، دیوانی
میں ڈھونڈوں تجھے سراب اندر
ترے جب سے ہو گئے نین جدا
مرے دل سے ہو گیا چین جدا
کیا ایک بدن میں دو روحیں
ہم جسموں کے مابین جدا
یہ ہے ازلوں سے رِیت پیا
کب مل پائے من میت پیا
اب لوٹ آؤ سُونے مَن میں
کہیں وقت نہ جائے بیت پیا
یہ کیسی تیری پریت پیا
تو دھڑکن کا سنگیت پیا
****************
"تُو میرا سانول ڈھول پیا"
تری یاد میں کاٹوں رین پیا
گئی نیند، گیا سکھ چین پیا
تری ایک جھلک تک لینے کو
مرے ترس گئے دو نین پیا
میں خواب نگر کے پار گئی
اک بار نہیں ہر بار گئی
میں رو رو جیون ہار گئی
مجھے تیری جدائی مار گئی
ہر سمت خموشی طاری ہے
اور ہجر بھی ہر سو جاری ہے
ہر رات ترے بن بھاری ہے
اب جندڑی تجھ پر واری ہے
مجھے درد ملے انمول پیا
میں ہستی بیٹھی رول پیا
کبھی میرے دکھ سکھ پھول پیا
"تُو میرا سانول ڈھول پیا"
****************
تو میرا سانول ڈھول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
ذرا دھیرے سے لب کھول پیا
یوں مول نہ کر مت تول پیا
مِری جندڑی کو مت رول پیا
یوں کانوں میں رَس گھول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
کبھی آنکھیں ساون بھادوں ہیں
کبھی سانسوں میں ویرانی ہے
''میں لوٹ کہ پھر نہیں آؤں گا''
تو ایسے تو مت بول پِیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
ہمیں پیار کرو، بیمار کرو
جو جی میں آئے یار کرو
احسان یہ اب کی بار کرو
تبدیل کرو ماحول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
کوئی سچ نہ تمہارا مانے گا
اپنا نہ کوئی پہچانے گا
کوئی تولے گا کوئی چھانے گا
تو جو جی چاہے بول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
کیوں آس لگاتے رہتے ہو
کیوں پیاس جگاتے رہتے ہو
کبھی ہم بھی دیکھیں روپ تِرا
کبھی بند دروازے کھول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا
زینؔ اُس کی باتیں کرتے ہو
کیوں ٹھنڈی آہیں بھرتے ہو
نہ جیتے ہو نہ مرتے ہو
مت بند اشکوں کے کھول پیا
تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا