Saturday 22 April 2017

Gazal - Tanhai


ہجر کے سارے دکھ دہرانے لگ جاؤں
یا پھر تجھ سے بات چھپانے لگ جاؤں

تنہائی سے باتیں کرنا سیکھا ہے
کنکر سے دریا بہلانے لگ جاؤں

آوازوں پر میرا زور نہیں چلتا
خاموشی کے گیت سنانے لگ جاؤں

اوجھل کر کے خود کو اپنی آنکھوں سے
پھر خود کو آواز لگانے لگ جاؤں

یعنی میں پہنا لوں چہرے پر چہرا
میں بھی تیرے ساتھ زمانے لگ جاؤں؟

پچھلی رات کو رات بھٹکتے دیکھی ہے
سورج کو یہ خواب سنانے لگ جاؤں

جب اندر کے شور کو چُپ سی لگ جائے
میں خاموشی سے چلّانے لگ جاؤں

رات ڈھلے اور چاند کے اوجھل ہونے پر
سورج کو میں آنکھ دکھانے لگ جاؤں

زینؔ کوئی تدبیر تو ہو اُس کی خاطر
اس کے شہر میں آنے جانے لگ جاؤں

Did you like "Gazal - Tanhai"?