ہجر کے سارے دکھ دہرانے لگ جاؤں
یا پھر تجھ سے بات چھپانے لگ جاؤں
تنہائی سے باتیں کرنا سیکھا ہے
کنکر سے دریا بہلانے لگ جاؤں
آوازوں پر میرا زور نہیں چلتا
خاموشی کے گیت سنانے لگ جاؤں
اوجھل کر کے خود کو اپنی آنکھوں سے
پھر خود کو آواز لگانے لگ جاؤں
یعنی میں پہنا لوں چہرے پر چہرا
میں بھی تیرے ساتھ زمانے لگ جاؤں؟
پچھلی رات کو رات بھٹکتے دیکھی ہے
سورج کو یہ خواب سنانے لگ جاؤں
جب اندر کے شور کو چُپ سی لگ جائے
میں خاموشی سے چلّانے لگ جاؤں
رات ڈھلے اور چاند کے اوجھل ہونے پر
سورج کو میں آنکھ دکھانے لگ جاؤں
زینؔ کوئی تدبیر تو ہو اُس کی خاطر
اس کے شہر میں آنے جانے لگ جاؤں