جن پر ستم تمام قفس کی فضا کے تھے
مجرم وہ لوگ اپنی شکستِ اَنا کے تھے
اے دشتِ خار ہم سے حسابِ کرم نہ مانگ
پاؤں میں آبلے تھے مگر اِبتدا کے تھے
لب پر سجا لیے تھے یونہی اجنبی سے نام
دل میں تمام زخم کِسی آشنا کے تھے
پتّوں سے بھر رہے تھے ہواؤں کی جھولیاں
گِرتے ہوُئے شجر بھی سخی اِنتہا کے تھے
گہرے سمندروں میں کہاں عکسِ آسماں
پانی میں جتنے رنگ تھے سارے خلا کے تھے
اب دھول اوڑھنا بھی میسّر نہیں جنھیں
وارث وہ اہلِ دل کبھی ارض و سما کے تھے
جن سے الجھ رہی تھیں ہواؤں کی شورشیں
محسنؔ وہ دائرے تو میرے نقشِ پا کے تھے